Columns......!!
Rauf Klasra
Tuesday, August 14, 2012
حکومت پاکستان پر یہ کہہ کر بم شیل گرایا گیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار خاندانوں کو عالمی برادری نے کھانے پینے کے لیے مزید امداد دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ دنیا اب ان علاقوں کو نہ صرف دہشت گردی کا مرکز سمجھتی ہے بلکہ ان کے خیال میں ان کیمپوں میں رہنے والے خاندانوں کے نوجوان ان کے خلاف افغانستان میں لڑ رہے ہیں۔
خبیر پختون خواہ کی حکومت نے اب اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان ایک لاکھ ساٹھ ہزار خاندانوں کے لیے فوری طور پر خوراک کا بندوبست نہ کیا گیا تو اس کے ان علاقوں پر خوفناک اثرات ہوں گے اور فاٹا کی چھ ایجنسیوں میں مشکل سے قائم کیا گیا امن خراب ہو سکتا ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کو ملنے والی امداد کی بندش کے بعد یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان علاقوں میں دوبارہ دہشت گردی زور پکڑ سکتی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام سے ان علاقوں میں فوڈ نیوٹریشن اور سکول فیڈنگ کے پروگرام بھی شروع کیے گئے تھے جو وہاں پڑھنے والے بچوں کے لیے تھے۔
اس نئے بحران کی وجہ سے حکومت پاکستان ستمبر اکتوبر سے ایک لاکھ پچھتر ہزار خاندانوں میں راش سسٹم شروع کرنے والی ہے اور انہیں خوراک میں اب ایک ایک باسکٹ ملا کرے گی کیونکہ دنیا بھر نے جنگ سے متاثرہ ان خاندانوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فوری طور پر ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی منظوری دی جارہی ہے تاکہ دنیا کے انکار کے بعد کم از کم سردیوں کے موسم میں ان لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچایا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں پچھلے ہفتے ہونیو الی کابینہ کی ذیلی اقتصادی کمیٹی کی میٹنگ، جس کی صدارت وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کی، میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی دفعہ عالمی برادری نے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اطلاع دی ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے ان قبائلی خاندانوں کو کھانے پلانے کے لیے کوئی پیسے نہیں ہیں لہذا پاکستان کو بتایا جائے کہ وہ ان سے امیدیں لگا کر نہ بیٹھا رہے ۔
اس سے پہلے ورلڈ فوڈ پروگرام کو ہر سال عالمی برادری مفت گندم اور دیگر اشیاء فراہم کرتی تھی تاکہ وہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ان غریب خاندانوں میں مفت تقسیم کر سکیں جو اپنے علاقوں سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک جو ہر سال ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت غریب لوگوں کے لیے چندہ دیتے ہیں وہ اس سال پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لیے ہرگز امداد دینے کے موڈ میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں دہشت گردی ان علاقوں سے ہورہی ہے۔ ایک طرف وہ دنیا بھر سے مدد لیتے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کو تیار کر کے امداد دینے والے ممالک میں بھی انہی علاقوں سے بھیجا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ امداد دینے والے ملکوں میں اکثریت نیٹو ممالک کی ہے جنہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ پاکستان نے آٹھ ماہ سے زیادہ ان کے فوجیوں کے لیے جانے والے سامان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس طرح نیٹو ممالک یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان قبائلی علاقوں سے افغانستان کے اندر ان کے فوجیوں پر حملے کیے جاتے تھے ۔ اس طرح ان ممالک میں یہ بھی احساس پایا جاتا ہے کہ ان قبائیلوں کے لیے لگائے کمیپ میں بہت سارے دہشت گرد اور ان کے خاندان بھی پناہ لیے ہوئے ہیں جو ان ممالک کے فوجیوں پر حملوں میں ملوث تھے جو ورلڈ فوڈ پروگرام کو ان علاقے کے بے گھر ہونے والے قبائیلوں کو امداد فراہم کرتے تھے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے ان قبائلی خاندانوں کے لیے ’زیرو ہنگر‘ پروگرام بھی شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کا مقصد ان قبائلی علاقوں میں غربت اور بھوک کو ختم کرنا تھا۔ تاہم ورلڈ فوڈ پروگرام کو اس وقت دھچکا لگا جب دنیا بھر کے ملکوں نے دیگر غریب علاقوں کو تو امداد دینے کی حامی بھرلی لیکن جب پاکستان کے قبائلی علاقوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے معذرت کر لی۔
اس سے قبل ورلڈ فوڈ پروگرام کے پشاور میں واقع دفتر کو بموں سے اڑا دیا گیا تھا جہاں سے غریب قبائلیوں کو راشن فراہم کیا جاتا تھا۔ اس طرح دنیا یہ بھی سمجھتی ہے کہ ان قبائلی علاقوں میں انہیں اپنے وسائل ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین تک استعمال نہیں کرنے دیتے کہ شاید یہ بھی کوئی مغربی ممالک کی کوئی سازش ہے۔
اب حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر پاسکو سے پچاس ہزار ٹن گندم خرید کر ورلڈ فوڈ پروگرام کو دے گی تاکہ وہ ان قبائلی علاقوں میں مفت گندم کی سپلائی جاری رکھے اور اس پر ایک ارب پچاس کروڑ روپے خرچ ہوں گے جو وزرات خزانہ ادا کرے گی۔ اس رقم سے صرف تین ماہ کا راشن خریدا جا سکتا ہے اور دسمبر میں پھر نئی امداد کی ضرورت پڑے گی۔
خبیر پختون خواہ کی حکومت نے اب اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان ایک لاکھ ساٹھ ہزار خاندانوں کے لیے فوری طور پر خوراک کا بندوبست نہ کیا گیا تو اس کے ان علاقوں پر خوفناک اثرات ہوں گے اور فاٹا کی چھ ایجنسیوں میں مشکل سے قائم کیا گیا امن خراب ہو سکتا ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کو ملنے والی امداد کی بندش کے بعد یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان علاقوں میں دوبارہ دہشت گردی زور پکڑ سکتی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام سے ان علاقوں میں فوڈ نیوٹریشن اور سکول فیڈنگ کے پروگرام بھی شروع کیے گئے تھے جو وہاں پڑھنے والے بچوں کے لیے تھے۔
اس نئے بحران کی وجہ سے حکومت پاکستان ستمبر اکتوبر سے ایک لاکھ پچھتر ہزار خاندانوں میں راش سسٹم شروع کرنے والی ہے اور انہیں خوراک میں اب ایک ایک باسکٹ ملا کرے گی کیونکہ دنیا بھر نے جنگ سے متاثرہ ان خاندانوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ فوری طور پر ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی منظوری دی جارہی ہے تاکہ دنیا کے انکار کے بعد کم از کم سردیوں کے موسم میں ان لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بچایا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اسلام آباد میں پچھلے ہفتے ہونیو الی کابینہ کی ذیلی اقتصادی کمیٹی کی میٹنگ، جس کی صدارت وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کی، میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پہلی دفعہ عالمی برادری نے ورلڈ فوڈ پروگرام کو اطلاع دی ہے کہ ان کے پاس پاکستان کے ان قبائلی خاندانوں کو کھانے پلانے کے لیے کوئی پیسے نہیں ہیں لہذا پاکستان کو بتایا جائے کہ وہ ان سے امیدیں لگا کر نہ بیٹھا رہے ۔
اس سے پہلے ورلڈ فوڈ پروگرام کو ہر سال عالمی برادری مفت گندم اور دیگر اشیاء فراہم کرتی تھی تاکہ وہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ان غریب خاندانوں میں مفت تقسیم کر سکیں جو اپنے علاقوں سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ذرائع کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے ممالک جو ہر سال ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت غریب لوگوں کے لیے چندہ دیتے ہیں وہ اس سال پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لیے ہرگز امداد دینے کے موڈ میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں دہشت گردی ان علاقوں سے ہورہی ہے۔ ایک طرف وہ دنیا بھر سے مدد لیتے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کو تیار کر کے امداد دینے والے ممالک میں بھی انہی علاقوں سے بھیجا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ امداد دینے والے ملکوں میں اکثریت نیٹو ممالک کی ہے جنہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ پاکستان نے آٹھ ماہ سے زیادہ ان کے فوجیوں کے لیے جانے والے سامان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس طرح نیٹو ممالک یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان قبائلی علاقوں سے افغانستان کے اندر ان کے فوجیوں پر حملے کیے جاتے تھے ۔ اس طرح ان ممالک میں یہ بھی احساس پایا جاتا ہے کہ ان قبائیلوں کے لیے لگائے کمیپ میں بہت سارے دہشت گرد اور ان کے خاندان بھی پناہ لیے ہوئے ہیں جو ان ممالک کے فوجیوں پر حملوں میں ملوث تھے جو ورلڈ فوڈ پروگرام کو ان علاقے کے بے گھر ہونے والے قبائیلوں کو امداد فراہم کرتے تھے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام نے ان قبائلی خاندانوں کے لیے ’زیرو ہنگر‘ پروگرام بھی شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کا مقصد ان قبائلی علاقوں میں غربت اور بھوک کو ختم کرنا تھا۔ تاہم ورلڈ فوڈ پروگرام کو اس وقت دھچکا لگا جب دنیا بھر کے ملکوں نے دیگر غریب علاقوں کو تو امداد دینے کی حامی بھرلی لیکن جب پاکستان کے قبائلی علاقوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے معذرت کر لی۔
اس سے قبل ورلڈ فوڈ پروگرام کے پشاور میں واقع دفتر کو بموں سے اڑا دیا گیا تھا جہاں سے غریب قبائلیوں کو راشن فراہم کیا جاتا تھا۔ اس طرح دنیا یہ بھی سمجھتی ہے کہ ان قبائلی علاقوں میں انہیں اپنے وسائل ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین تک استعمال نہیں کرنے دیتے کہ شاید یہ بھی کوئی مغربی ممالک کی کوئی سازش ہے۔
اب حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر پاسکو سے پچاس ہزار ٹن گندم خرید کر ورلڈ فوڈ پروگرام کو دے گی تاکہ وہ ان قبائلی علاقوں میں مفت گندم کی سپلائی جاری رکھے اور اس پر ایک ارب پچاس کروڑ روپے خرچ ہوں گے جو وزرات خزانہ ادا کرے گی۔ اس رقم سے صرف تین ماہ کا راشن خریدا جا سکتا ہے اور دسمبر میں پھر نئی امداد کی ضرورت پڑے گی۔
------------------------------------------------------------------------
Friday, August 10, 2012
------------------------------------------------------------------------
Wednesday, August 8, 2012
جسٹس کھوسہ فارمولا سیاسی نظام بچا لے گا؟
دو دن بعد ایک اور وزیراعظم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ آٹھ اگست کو پتہ چلے گا کہ راجہ پرویز اشرف کا کیا مستقبل ہے اگرچہ چیف جسٹس کہہ چکے ہیں کہ ایک وزیراعظم کو برطرف کرنے کے بعد دوسرے وزیراعظم کو کیسے بخشا جا سکتا ہے ؟ فیصلہ دیا جا چکا ہے، صرف اعلان باقی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر چیف جسٹس نے فیصلہ پہلے سے سنا دیا ہے کہ دوسرے وزیراعظم کو حشر بھی پہلے جیسا ہوگا تو پھر 25 جولائی کو سپریم کورٹ میں این آر او کیس پر عملدرآمد کیلئے بنائے گئے بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سب کو کیوں حیران کر دیا تھا ؟
پورا میڈیا یہ سوچ کر عدالت کے کمرے میں موجود تھا کہ ابھی کوئی بہت بڑی بریکنگ سٹوری وہاں سے نکلے گی۔ صحافیوں کی اس خوش فہمی کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی کیونکہ 24 جولائی کو ہی تمام چینلز پر یہ خبر چل چکی تھی کہ حکومت نے ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی صدر کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہیں لکھیں گے۔ اس لیے توقع کی جا رہی تھی کہ جب اگلے روز سپریم کورٹ اپنی کارروائی شروع کرے گی تو یقیناً جج صاحبان کوئی سخت موقف اپنائیں گے اور ممکن ہے کہ نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پر توہین عدالت کا الزام لگا کر انہیں اسی طرح طلب کر لیں جیسا کہ یوسف رضا گیلانی کو کیا گیا تھا۔ حکومت بھی اس بات کیلئے تیار تھی کہ عدالت کی طرف سے ان کے بھیجے گئے جواب کا کوئی سخت ردعمل آئے گا تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جسٹس کھوسہ نے سماعت کے دوران ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جو ان لوگوں کیلئے بڑی حیرانی کا سبب تھیں جنہوں نے ان کے اس فیصلے کو پڑھا تھا جس میں انہوں نے خلیل جبران کی نظم کے کئی حوالے دیئے تھے۔
_______________________
جسٹس کھوسہ کا اضافی نوٹ یا بغاوت کی کال؟
_______________________
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ مت سمجھا جائے کہ عدالت کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کیس کی وجہ سے پاکستان کتنے بڑے بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک کی حالت بہت خراب ہے اور معیشت ڈوب رہی ہے۔ عدالت بھی نہیں چاہتی کہ وہ ہر روز کسی وزیر اعظم کو گھر بھیج دے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر آصف زرداری پورے ملک کے صدر ہیں اور ان کیلئے قابل احترام ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ ملک کے صدر کو اگر استثنیٰ حاصل ہے تو اسے سوئس عدالت کے کسی تیسرے درجے کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جسٹس کھوسہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت کو یہ خطرہ ہے کہ ملک کے صدر کے خلاف سوئس عدالت کا کوئی جج کارروائی کرے گا جس سے ملک کی سُبکی ہوگی تو وہ اس کا حل بھی ڈھونڈ کر دینے کو تیار ہیں۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ حکومت محض ایک خط سوئس حکومت کو لکھ دے جس میں یہ کہا جائے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جو پہلے خط لکھا تھا اس خط کو واپس لیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ دو صفحات پر مشتمل اپنا ایک نوٹ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دے گی جس میں وہ وجوہات بتائی جائیں گی کہ صدر آصف زرداری کے خلاف کوئی کارروائی ملکی اور غیر ملکی قوانین کے تحت نہیں ہو سکتی۔
یوں جسٹس کھوسہ کے خیال میں یہ وہ فارمولہ تھا جس پر چلتے ہوئے عدالت اور حکومت دونوں کسی نقطے پر پہنچ سکتے ہیں۔ عدالت کو اگر یہ خطرہ ہے کہ خط نہ لکھے جانے سے اس کی سبکی ہو رہی ہے تو حکومت کو یہ ڈر ہے کہ خط لکھنے سے ان کے صدر کی سبکی ہوگی، لہذا درمیانی راستہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ صرف ایک ایسا خط سوئس حکومت کو لکھا جائے جس میں کہیں پر صدر آصف زرداری کا کوئی ذکر نہ ہو بلکہ دو تین لائنوں میں اتنا کہا جائے کہ اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جو 2008ء میں انہیں خط لکھا تھا اس خط کو واپس تصور کیا جائے۔ اگر اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو یہ خطرہ باقی رہتا ہے کہ صدر کے خلاف کیس کھل سکتا ہے تو سپریم کورٹ خود لکھ کر دینے کو تیار تھی کہ ملکی قوانین کے تحت صدر پر کوئی مقدمہ نہیں کھل سکتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جسٹس آصف سعید کھوسہ واقعی دل سے چاہتے ہیں کہ اس بحران کا کوئی حل نکالا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں جو انہوں نے باتیں کی ہیں اس سے تو ان کی سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس یقیناً نظر آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا فارمولہ کسی حد تک حکومت کو قابل قبول بھی ہو۔
تو کیا سپریم کورٹ واقعی اب ان لائنوں پر سوچ رہی ہے کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنا نہ اس کا مینڈیٹ ہے اور نہ ہی کوئی خوش آئند بات۔ شاید سپریم کورٹ بھی سابق وزیر اعظم گیلانی کو برطرف کرنے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ شاید انہوں نے جلدی میں کچھ ایسا کام کر لیا ہے جس کو آنے والا مؤرخ اس طرح اچھے لفظوں میں یاد نہ رکھے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کو آج تک عدلیہ کے دامن پر ایک داغ سمجھا جاتا ہے۔ بھٹو کو پھانسی دیتے وقت بھی سپریم کورٹ نے قانون کی بالا دستی کا نعرہ لگایا تھا اور محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی برطرفیوں کو بھی جائز قرار دیتے وقت سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر قانون و آئین کی بالا دستی کا جواز فراہم کیا تھا۔ گیلانی کو برطرف کرتے وقت بھی اسی آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کی گئی۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھٹو کو پھانسی دینے سے یا اس کے بعد منتخب وزراء اعظم کی برطرفی کو جائز قرار دینے سے سپریم کورٹ ملک میں قانون و آئین کی بالا دستی یقینی بنا سکی ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہی سپریم کورٹ آف پاکستان 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی مارشل لاء کو روکنے کے بجائے اسے قانونی شکل دینے میں پیش پیش تھی۔
شاید یہ بات سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے کچھ جج صاحبان کو سمجھ آ رہی ہے کہ وہ آئین اور قانون کے نام پر کچھ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو ہو سکتا ہے وقتی طور پر میڈیا، عوام اور سیاستدانوں میں تالیاں بجانے کا موجب بن رہے ہوں۔ تاہم آنے والے دنوں میں عدالت اس طرح کے فیصلوں کا بوجھ شاید اٹھا کر تاریخ کے سامنے سرخرو نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے جسٹس کھوسہ بھی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اس طرح کے مشورے حکومت کو دیتے پائے گئے جس سے لگ رہا تھا کہ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اس بحران کو ختم کیا جائے اور ایک دفعہ پھر ایک نئے وزیر اعظم کو گھر نہ بھیجا جائے کیونکہ ایک اور وزیر اعظم کی برطرفی کا بوجھ شاید عدالت کیلئے خود بھی اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسٹس آصف سعید کھوسہ فارمولے کو سپریم کورٹ کے دیگر ججوں بشمول چیف جسٹس کی تائید حاصل ہے یا پھر وہ محض اکیلے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ آنے والے بحران کو ٹالا جائے۔ ایک بات تو طے ہے کہ جب جسٹس کھوسہ یہ باتیں کر رہے تھے تو اس وقت بینچ میں ان کے ساتھ چھ اور بھی جج صاحبان بیٹھے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی انہیں ٹوکنے یا ان کی گفتگو کے خلاف کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے لگتا تھا کہ یہ پورا بینچ اس حد تک تیار ہے کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے جس سے عدالت کا مان بھی رہ جائے اور حکومت کا بھرم بھی نہ ٹوٹے۔
ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس بات کا احساس ہے کہ صدر زرداری کبھی بھی اپنے خلاف اس طرح کا کوئی خط سوئس حکومت کو نہیں لکھوائیں گے اور اگر انہوں نے وزیر اعظم گیلانی کے بعد راجہ پرویزاشرف کو بھی برطرف کر دیا تو شاید دھیرے دھیرے میڈیا اور لوگوں کی ہمدردیاں سیاسی حکومت کے ساتھ ہونا شروع ہو جائیں گی اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی فائدے میں رہے گی کیونکہ نئے الیکشن قریب ہیں اور پھر یہ بات بھی سب نے دیکھی ہے کہ وزیر اعظم گیلانی نے برطرفی کے بعد اپنے بیٹے کو تمام تر تنقید، الزامات اور میڈیا ٹرائل کے باوجود اپنی سیٹ پر ملتان سے ایم این اے بنوا دیا۔ جس سے یہ تاثر سب کو ملتا ہے کہ عوام کے نزدیک عدالتوں سے سزا یافتہ وزراء اعظم اور سیاستدانوں کے سیاسی کیریئر پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اب آصف زرداری کو صدر مان کر اور کوئی نئے فارمولے کی بات کر کے کم از کم لوگوں اور میڈیا کو یہ تاثر دینا چاہتی ہو کہ وہ ملک میں بحران نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ کسی وزیر اعظم کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں بلکہ وہ تو کمپرومائز کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔
یوں اگر اگلی سماعت پر 8 اگست کو حکومت جسٹس کھوسہ کی اس غیر معمولی پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھاتی تو پھر یقیناً سپریم کورٹ دوسرے وزیر اعظم کو برطرف کرتے وقت یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوگی کہ انہوں نے تو لچک دکھائی تھی لیکن سیاسی حکومت ہی ضد پر اڑی ہوئی تھی۔
اب پیپلز پارٹی اگر خط لکھنے پر تیار ہو جاتی ہے تو پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اس کیلئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کرانا یا پانچ سال کیلئے سیاست سے نااہل کرانا کیوں ضروری تھا؟ اگر وہ خط نہیں لکھتی تو پھر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کو یہ جواز ڈھونڈ سکتا ہے کہ ان کی اس پیشکش کا حکومت نے فائدہ نہیں اٹھایا لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ ایک اور وزیر اعظم کو برطرف کیا جائے !!
سپریم کورٹ اور حکومت اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان اداروں کی چالوں سے کیا واقعی ملک میں جاری بحران ختم ہو سکتا ہے جس کو حل کرنے کا واضح اشارہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 25 جولائی کی سماعت میں اپنا ایک فارمولہ پیش کر کے دیا ہے یا پہلے آٹھ اگست کو اس سے بھی بدترین نیا بحران ہمارا منتظر ہے۔ اس ماحول کو گرمانے میں کسر رہ گئی تھی تو وہ پیپلز پارٹی کے سینٹر رضا علی عابدی نے اتوار کو چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کر کے پوری کر دی۔ انہوں نے چیف جسٹس پر سنگین الزامات لگا کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر کے حکومتی توپوں کا رخ سپریم کورٹ کی طرف کر دیا ۔
یہ بات طے ہے کہ ارسلان کے سکینڈل کے بعد چیف جسٹس سخت غصے کا شکار لگ رہے ہیں۔ وہ جسٹس کھوسہ بینچ جو اس کیس کی سماعت آٹھ اگست کو دوبارہ شروع کرے گا، کے فیصلے سے قبل ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کسی صورت بھی موجودہ وزیراعظم کو نہیں بخشیں گے۔ اپنی دھمکی میں وزن پیدا کرنے کے لیے چیف جسٹس نے توہین عدالت قانون پورے کا پورا اڑا دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ راجہ بجائے بانسری !!!
پورا میڈیا یہ سوچ کر عدالت کے کمرے میں موجود تھا کہ ابھی کوئی بہت بڑی بریکنگ سٹوری وہاں سے نکلے گی۔ صحافیوں کی اس خوش فہمی کے پیچھے بھی ایک وجہ تھی کیونکہ 24 جولائی کو ہی تمام چینلز پر یہ خبر چل چکی تھی کہ حکومت نے ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی صدر کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہیں لکھیں گے۔ اس لیے توقع کی جا رہی تھی کہ جب اگلے روز سپریم کورٹ اپنی کارروائی شروع کرے گی تو یقیناً جج صاحبان کوئی سخت موقف اپنائیں گے اور ممکن ہے کہ نئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پر توہین عدالت کا الزام لگا کر انہیں اسی طرح طلب کر لیں جیسا کہ یوسف رضا گیلانی کو کیا گیا تھا۔ حکومت بھی اس بات کیلئے تیار تھی کہ عدالت کی طرف سے ان کے بھیجے گئے جواب کا کوئی سخت ردعمل آئے گا تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔
جسٹس کھوسہ نے سماعت کے دوران ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں جو ان لوگوں کیلئے بڑی حیرانی کا سبب تھیں جنہوں نے ان کے اس فیصلے کو پڑھا تھا جس میں انہوں نے خلیل جبران کی نظم کے کئی حوالے دیئے تھے۔
_______________________
جسٹس کھوسہ کا اضافی نوٹ یا بغاوت کی کال؟
_______________________
جسٹس کھوسہ نے کہا کہ یہ مت سمجھا جائے کہ عدالت کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کیس کی وجہ سے پاکستان کتنے بڑے بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک کی حالت بہت خراب ہے اور معیشت ڈوب رہی ہے۔ عدالت بھی نہیں چاہتی کہ وہ ہر روز کسی وزیر اعظم کو گھر بھیج دے۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر آصف زرداری پورے ملک کے صدر ہیں اور ان کیلئے قابل احترام ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ ملک کے صدر کو اگر استثنیٰ حاصل ہے تو اسے سوئس عدالت کے کسی تیسرے درجے کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جسٹس کھوسہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت کو یہ خطرہ ہے کہ ملک کے صدر کے خلاف سوئس عدالت کا کوئی جج کارروائی کرے گا جس سے ملک کی سُبکی ہوگی تو وہ اس کا حل بھی ڈھونڈ کر دینے کو تیار ہیں۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ حکومت محض ایک خط سوئس حکومت کو لکھ دے جس میں یہ کہا جائے کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جو پہلے خط لکھا تھا اس خط کو واپس لیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ دو صفحات پر مشتمل اپنا ایک نوٹ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دے گی جس میں وہ وجوہات بتائی جائیں گی کہ صدر آصف زرداری کے خلاف کوئی کارروائی ملکی اور غیر ملکی قوانین کے تحت نہیں ہو سکتی۔
یوں جسٹس کھوسہ کے خیال میں یہ وہ فارمولہ تھا جس پر چلتے ہوئے عدالت اور حکومت دونوں کسی نقطے پر پہنچ سکتے ہیں۔ عدالت کو اگر یہ خطرہ ہے کہ خط نہ لکھے جانے سے اس کی سبکی ہو رہی ہے تو حکومت کو یہ ڈر ہے کہ خط لکھنے سے ان کے صدر کی سبکی ہوگی، لہذا درمیانی راستہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ صرف ایک ایسا خط سوئس حکومت کو لکھا جائے جس میں کہیں پر صدر آصف زرداری کا کوئی ذکر نہ ہو بلکہ دو تین لائنوں میں اتنا کہا جائے کہ اٹارنی جنرل ملک قیوم نے جو 2008ء میں انہیں خط لکھا تھا اس خط کو واپس تصور کیا جائے۔ اگر اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو یہ خطرہ باقی رہتا ہے کہ صدر کے خلاف کیس کھل سکتا ہے تو سپریم کورٹ خود لکھ کر دینے کو تیار تھی کہ ملکی قوانین کے تحت صدر پر کوئی مقدمہ نہیں کھل سکتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جسٹس آصف سعید کھوسہ واقعی دل سے چاہتے ہیں کہ اس بحران کا کوئی حل نکالا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں جو انہوں نے باتیں کی ہیں اس سے تو ان کی سنجیدگی اور ذمہ داری کا احساس یقیناً نظر آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا فارمولہ کسی حد تک حکومت کو قابل قبول بھی ہو۔
تو کیا سپریم کورٹ واقعی اب ان لائنوں پر سوچ رہی ہے کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنا نہ اس کا مینڈیٹ ہے اور نہ ہی کوئی خوش آئند بات۔ شاید سپریم کورٹ بھی سابق وزیر اعظم گیلانی کو برطرف کرنے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ شاید انہوں نے جلدی میں کچھ ایسا کام کر لیا ہے جس کو آنے والا مؤرخ اس طرح اچھے لفظوں میں یاد نہ رکھے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کو آج تک عدلیہ کے دامن پر ایک داغ سمجھا جاتا ہے۔ بھٹو کو پھانسی دیتے وقت بھی سپریم کورٹ نے قانون کی بالا دستی کا نعرہ لگایا تھا اور محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی برطرفیوں کو بھی جائز قرار دیتے وقت سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر قانون و آئین کی بالا دستی کا جواز فراہم کیا تھا۔ گیلانی کو برطرف کرتے وقت بھی اسی آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کی گئی۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھٹو کو پھانسی دینے سے یا اس کے بعد منتخب وزراء اعظم کی برطرفی کو جائز قرار دینے سے سپریم کورٹ ملک میں قانون و آئین کی بالا دستی یقینی بنا سکی ہے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہی سپریم کورٹ آف پاکستان 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی مارشل لاء کو روکنے کے بجائے اسے قانونی شکل دینے میں پیش پیش تھی۔
شاید یہ بات سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے کچھ جج صاحبان کو سمجھ آ رہی ہے کہ وہ آئین اور قانون کے نام پر کچھ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو ہو سکتا ہے وقتی طور پر میڈیا، عوام اور سیاستدانوں میں تالیاں بجانے کا موجب بن رہے ہوں۔ تاہم آنے والے دنوں میں عدالت اس طرح کے فیصلوں کا بوجھ شاید اٹھا کر تاریخ کے سامنے سرخرو نہیں ہو سکے گی۔ اس لیے جسٹس کھوسہ بھی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اس طرح کے مشورے حکومت کو دیتے پائے گئے جس سے لگ رہا تھا کہ وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اس بحران کو ختم کیا جائے اور ایک دفعہ پھر ایک نئے وزیر اعظم کو گھر نہ بھیجا جائے کیونکہ ایک اور وزیر اعظم کی برطرفی کا بوجھ شاید عدالت کیلئے خود بھی اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسٹس آصف سعید کھوسہ فارمولے کو سپریم کورٹ کے دیگر ججوں بشمول چیف جسٹس کی تائید حاصل ہے یا پھر وہ محض اکیلے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ آنے والے بحران کو ٹالا جائے۔ ایک بات تو طے ہے کہ جب جسٹس کھوسہ یہ باتیں کر رہے تھے تو اس وقت بینچ میں ان کے ساتھ چھ اور بھی جج صاحبان بیٹھے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی انہیں ٹوکنے یا ان کی گفتگو کے خلاف کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے لگتا تھا کہ یہ پورا بینچ اس حد تک تیار ہے کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے جس سے عدالت کا مان بھی رہ جائے اور حکومت کا بھرم بھی نہ ٹوٹے۔
ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس بات کا احساس ہے کہ صدر زرداری کبھی بھی اپنے خلاف اس طرح کا کوئی خط سوئس حکومت کو نہیں لکھوائیں گے اور اگر انہوں نے وزیر اعظم گیلانی کے بعد راجہ پرویزاشرف کو بھی برطرف کر دیا تو شاید دھیرے دھیرے میڈیا اور لوگوں کی ہمدردیاں سیاسی حکومت کے ساتھ ہونا شروع ہو جائیں گی اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی فائدے میں رہے گی کیونکہ نئے الیکشن قریب ہیں اور پھر یہ بات بھی سب نے دیکھی ہے کہ وزیر اعظم گیلانی نے برطرفی کے بعد اپنے بیٹے کو تمام تر تنقید، الزامات اور میڈیا ٹرائل کے باوجود اپنی سیٹ پر ملتان سے ایم این اے بنوا دیا۔ جس سے یہ تاثر سب کو ملتا ہے کہ عوام کے نزدیک عدالتوں سے سزا یافتہ وزراء اعظم اور سیاستدانوں کے سیاسی کیریئر پر کچھ زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اب آصف زرداری کو صدر مان کر اور کوئی نئے فارمولے کی بات کر کے کم از کم لوگوں اور میڈیا کو یہ تاثر دینا چاہتی ہو کہ وہ ملک میں بحران نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ کسی وزیر اعظم کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں بلکہ وہ تو کمپرومائز کرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔
یوں اگر اگلی سماعت پر 8 اگست کو حکومت جسٹس کھوسہ کی اس غیر معمولی پیشکش سے فائدہ نہیں اٹھاتی تو پھر یقیناً سپریم کورٹ دوسرے وزیر اعظم کو برطرف کرتے وقت یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوگی کہ انہوں نے تو لچک دکھائی تھی لیکن سیاسی حکومت ہی ضد پر اڑی ہوئی تھی۔
اب پیپلز پارٹی اگر خط لکھنے پر تیار ہو جاتی ہے تو پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اس کیلئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کرانا یا پانچ سال کیلئے سیاست سے نااہل کرانا کیوں ضروری تھا؟ اگر وہ خط نہیں لکھتی تو پھر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ کو یہ جواز ڈھونڈ سکتا ہے کہ ان کی اس پیشکش کا حکومت نے فائدہ نہیں اٹھایا لہذا ضروری ہو گیا ہے کہ ایک اور وزیر اعظم کو برطرف کیا جائے !!
سپریم کورٹ اور حکومت اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان اداروں کی چالوں سے کیا واقعی ملک میں جاری بحران ختم ہو سکتا ہے جس کو حل کرنے کا واضح اشارہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 25 جولائی کی سماعت میں اپنا ایک فارمولہ پیش کر کے دیا ہے یا پہلے آٹھ اگست کو اس سے بھی بدترین نیا بحران ہمارا منتظر ہے۔ اس ماحول کو گرمانے میں کسر رہ گئی تھی تو وہ پیپلز پارٹی کے سینٹر رضا علی عابدی نے اتوار کو چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کر کے پوری کر دی۔ انہوں نے چیف جسٹس پر سنگین الزامات لگا کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر کے حکومتی توپوں کا رخ سپریم کورٹ کی طرف کر دیا ۔
یہ بات طے ہے کہ ارسلان کے سکینڈل کے بعد چیف جسٹس سخت غصے کا شکار لگ رہے ہیں۔ وہ جسٹس کھوسہ بینچ جو اس کیس کی سماعت آٹھ اگست کو دوبارہ شروع کرے گا، کے فیصلے سے قبل ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ کسی صورت بھی موجودہ وزیراعظم کو نہیں بخشیں گے۔ اپنی دھمکی میں وزن پیدا کرنے کے لیے چیف جسٹس نے توہین عدالت قانون پورے کا پورا اڑا دیا تاکہ نہ رہے بانس اور نہ راجہ بجائے بانسری !!!
------------------------------------------------------------------------
Tuesday, August 7, 2012
بھارتی لوک سبھا کے اپنے ٹیلی ویژن چینل پر کچھ دن پہلے میں نے پاکستان کے بارے میں ایک بڑا دلچسپ پروگرام دیکھا۔ چینل بدلتے ہوئے میں اس لیے رک گیا کیونکہ اس کا عنوان تھا پاکستان میں پچھلے 65 برسوں میں کیا غلط کیا درست ہوا ؟ آج بھی پاکستان میں ایک دفعہ پھر یہ باتیں پھر پورے زور و شور سے ہو رہی ہیں کہ ایک نیا مارشل لاء لگنے والا تھا یا پھر بنگلہ دیش کی طرز پر کوئی نیا ماڈل زیرِ غور تھا۔
پروگرام کے میزبان نے تین لوگوں کو بلایا ہوا تھا جس میں ایک بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل، ایک سینئر صحافی اور تھنک ٹینک کے نوجوان ریسرچر شامل تھے۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ روایتی گفتگو کریں گے جس میں ریاست پاکستان، حکومت، اس کے اداروں اور لوگوں پر بے جا تنقید کی جائے گی جیسا کہ ان دونوں ملکوں کے دانشور، ریٹائرڈ فوجی اور صحافی اپنی اپنی عوام میں تالیاں بجوانے اور اپنے آپ کو سب سے بڑا محب الوطن ثابت کرنے کے لیے کرتے رہتے ہیں۔
تاہم مجھے اس وقت شدید حیرانی ہوئی جب اس پروگرام کے شرکاء کے درمیان پاکستان کے حوالے سے بہت خوبصورت بحث چھڑ گئی اور میزبان سمیت ان چاروں شرکاء نے پاکستان کے بارے میں مختلف حوالوں سے معنی خیز باتیں کرنا شروع کیں۔
بھارتی فوج کے جنرل یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں جمہویت کے مضبوط نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کی فوج اپنے ہمسایوں کے ساتھ ان اہم ایشوز پر کامیاب مذاکرات نہیں کرنے دیتی جن کے خاتمے کی وجہ سے ہو سکتا ہے خطے میں تو کوئی سکون ہو جائے لیکن شاید فوج کو اپنے سائز میں کٹ کرنا پڑے۔ اس لیے پاکستان ابھی بھی سیاسی اور جمہوری ملک ہونے کے باوجود بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
اس پر پروگرام کے میزبان نے ایک خوبصورت جملہ کسا اور کہا جنرل صاحب ہندوستان اور پاکستان کی جمہوریتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھارت میں ایک جمہوری حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی فوج جنرل کی سروس کرنے کی عمر کتنی ہو گی (شاید ان کا اشارہ پچھلے دنوں بھارتی فوج کے سربراہ کی عمر کو لیکر اٹھنے والے تنازعے کی طرف تھا) جبکہ پاکستان میں یہ فیصلہ وہاں کے جنرل کرتے ہیں کہ وہاں کی جمہوریت کی کتنی عمر ہونی چاہیے۔
اس شو میں جہاں جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف کے طویل مارشل لاء کے نقصانات کا پاکستانی معاشرے اور جمہوریت پر پڑنے والے برے اثرات کا جائزہ لیا گیا وہاں خود انہوں نے ہندوستان کی 1977-1979 کے درمیان کی ہندوستانی حکومت پر بھی شدید تنقید کی کہ جب پاکستان میں جنرل ضیاء جمہوریت کا بستر گول کر رہے تھے اور سب سے بڑھ کر ایک جمہوری وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی تو انہوں نے اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے خیال میں ہندوستانی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کیلئے عالمی اور علاقائی سطح پر اپنا کردار ادا کرتی تاہم بھارت نے اس اہم موقع پر ایک خاموش تماشائی بننا بہتر سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ایک وزیر اعظم پھانسی لگا بلکہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء کچھ ایسا مسلط ہوا جس کے دور میں اسلامی بنیاد پرستی اور دہشتگردی کی بنیادیں پڑیں جس نے پہلے پاکستان کو متاثر کیا اور آج پوری دنیا اس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس کا نقصان بھارت کو بھی ہوا کہ بھٹو کے بعد خطے میں دہشت گردی زیادہ بڑھ گئی اور جنرل ضیاء نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
تاہم ان شرکاء نے اس کا یہ جواز پیش کیا کہ شاید بھارت ان دنوں خود ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا تھا اور اندرا گاندھی ایمرجنسی نافذ کر چکی تھیں لہذا وہ پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کیلئے عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی جنرل سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے دور میں ملکی قیادت کو بھارت سے تعلقات ٹھیک نہیں کرنے دیتے لیکن جب یہ خود مارشل لاء لگا کر پاکستان پر قابض ہوتے ہیں تو پھر چاہے بھارت انہیں دعوت دے یا نہ دے یہ کبھی جنرل ضیاء کی طرح کرکٹ ڈپلومیسی کا بہانہ بنا کر بنگلور پہنچ جاتے ہیں یا پھر آگرہ کے تاج محل میں جنرل مشرف کی طرح فوٹو سیشن کراتے ہیں۔
اس گفتگو کے شرکاء میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی قوتوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایک مضبوط جمہوریت قائم ہو کیونکہ اس میں بھارت کا ہی فائدہ تھا اور وہ اپنی حکومتوں پر یہ تنقید بھی کر رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان میں سیاسی استحکام بھارت کے اپنے مفاد میں تھا۔
تاہم اس بحث کے دوران ایک بھارتی تھنک ٹینک کے نوجوان ریسرچر نے ایک ایسی بات کہہ دی جسے سن کر میں ایک لمحے کیلئے پریشان ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی میڈیا کو فالو کر رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا انگریزی اور اردو میڈیا ایک دوسرے سے بہت مختلف سوچتا ہے۔ پاکستان کا انگلش میڈیا اگر جناح کا سیکولر پاکستان چاہتا ہے تو اردو میڈیا جناح کی تقریروں کو اپنے معنی دیکر اس کے الٹ چل رہا تھا۔ اس نے ایک پاکستانی اخبار میں چھاپے گئے ایک کارٹون کا حوالہ بھی دیا جس میں جناح کو داڑھی کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔ اس نوجوان ریسرچر کا خیال تھا کہ پاکستان میں اگر جمہوریت خطرے میں تھی تو اس کی ایک اہم وجہ پاکستانی میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز تھے جہاں نان پروفیشنلز نے جگہ لے لی تھی اور وہاں بیٹھے لوگ بغیر سوچے سمجھے اس طرح کے کام کر رہے تھے جس سے وہاں کی جمہوریت ایک دفعہ پھر شدید خطرے میں آ گئی تھی۔
اس نوجوان ریسرچر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اب کی دفعہ پاکستان میں جمہوریت کا بستر گول کیا گیا تو دوسرے اداروں کے علاوہ سب سے بڑا الزام پاکستانی میڈیا کو اپنے اوپر لینا پڑے گا کہ انہوں نے وہاں اس طرح کا ماحول پیدا کیا جس سے ریاست کے دیگر اداروں کو اتنی جرات اور جواز مل گیا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر جمہوریت پر شب خون مار دیا۔ اس ریسرچر کے بقول انہیں پاکستانی میڈیا میں جو سب سے بڑی خامی لگ رہی تھی وہ یہ تھی کہ یہ جذباتیت کے سہارے چل رہا تھا اور اس کے اندر سے غیر جانبدارانہ پن تقریباً ختم ہو کر رہ گیا تھا اور عوام کو گائیڈ کرنے کی بجائے عوام کو فالو کیا جارہا تھا۔ پاکستانی ٹی وی پروگرام میں ہونے والی گفتگو کا مقصد لوگوں کو انفارم کرنے کی بجائے ان سے تالیاں بجوانا بن گیا تھا۔ جو بھی پاکستانی چینل لگائیں یا اخبار کھولیں اس پر ہر وقت سیاسی لوگوں اور پارلیمنٹ پر لعن طعن جاری تھی جس سے لوگوں میں جمہوریت کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور اس کا فائدہ فوج اور عدلیہ کو ہوگا جن کے بارے میں اب یہ خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ وہ موجودہ نظام کا خاتمہ کر کے بنگلہ دیش ماڈل کا نیا نظام لانا چاہتے ہیں۔ اس نوجوان کے خیال میں پاکستانی میڈیا کو جمہوریت اور سیاستدانوں کے درمیان فرق کو محسوس کرنا چاہیے کہ اگر کچھ سیاستدان ڈلیور نہیں کر سکے تو اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا کہ جمہوریت ناکام ہو گئی تھی۔ جمہوریت ایک طویل اور صبر آزما سلسلے کا نام ہے اور بدقسمتی سے شاید پاکستانی عوام تو انتظار کرنے کو تیار ہوں لیکن لگتا ہے پاکستانی میڈیا کو بہت جلدی ہے اور جس طرح کی رپورٹنگ اور تبصرے پاکستان میں کیے جا رہے ہیں ان کی مثال شاید دنیا کے بہت کم حصوں میں ملے گی۔
پروگرام کے میزبان نے تین لوگوں کو بلایا ہوا تھا جس میں ایک بھارتی فوج کے ریٹائرڈ جنرل، ایک سینئر صحافی اور تھنک ٹینک کے نوجوان ریسرچر شامل تھے۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ روایتی گفتگو کریں گے جس میں ریاست پاکستان، حکومت، اس کے اداروں اور لوگوں پر بے جا تنقید کی جائے گی جیسا کہ ان دونوں ملکوں کے دانشور، ریٹائرڈ فوجی اور صحافی اپنی اپنی عوام میں تالیاں بجوانے اور اپنے آپ کو سب سے بڑا محب الوطن ثابت کرنے کے لیے کرتے رہتے ہیں۔
تاہم مجھے اس وقت شدید حیرانی ہوئی جب اس پروگرام کے شرکاء کے درمیان پاکستان کے حوالے سے بہت خوبصورت بحث چھڑ گئی اور میزبان سمیت ان چاروں شرکاء نے پاکستان کے بارے میں مختلف حوالوں سے معنی خیز باتیں کرنا شروع کیں۔
بھارتی فوج کے جنرل یہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں جمہویت کے مضبوط نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کی فوج اپنے ہمسایوں کے ساتھ ان اہم ایشوز پر کامیاب مذاکرات نہیں کرنے دیتی جن کے خاتمے کی وجہ سے ہو سکتا ہے خطے میں تو کوئی سکون ہو جائے لیکن شاید فوج کو اپنے سائز میں کٹ کرنا پڑے۔ اس لیے پاکستان ابھی بھی سیاسی اور جمہوری ملک ہونے کے باوجود بہت سارے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
اس پر پروگرام کے میزبان نے ایک خوبصورت جملہ کسا اور کہا جنرل صاحب ہندوستان اور پاکستان کی جمہوریتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھارت میں ایک جمہوری حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کسی فوج جنرل کی سروس کرنے کی عمر کتنی ہو گی (شاید ان کا اشارہ پچھلے دنوں بھارتی فوج کے سربراہ کی عمر کو لیکر اٹھنے والے تنازعے کی طرف تھا) جبکہ پاکستان میں یہ فیصلہ وہاں کے جنرل کرتے ہیں کہ وہاں کی جمہوریت کی کتنی عمر ہونی چاہیے۔
اس شو میں جہاں جنرل ایوب، جنرل ضیاء، جنرل یحییٰ اور جنرل مشرف کے طویل مارشل لاء کے نقصانات کا پاکستانی معاشرے اور جمہوریت پر پڑنے والے برے اثرات کا جائزہ لیا گیا وہاں خود انہوں نے ہندوستان کی 1977-1979 کے درمیان کی ہندوستانی حکومت پر بھی شدید تنقید کی کہ جب پاکستان میں جنرل ضیاء جمہوریت کا بستر گول کر رہے تھے اور سب سے بڑھ کر ایک جمہوری وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دی جا رہی تھی تو انہوں نے اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے خیال میں ہندوستانی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کیلئے عالمی اور علاقائی سطح پر اپنا کردار ادا کرتی تاہم بھارت نے اس اہم موقع پر ایک خاموش تماشائی بننا بہتر سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ایک وزیر اعظم پھانسی لگا بلکہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء کچھ ایسا مسلط ہوا جس کے دور میں اسلامی بنیاد پرستی اور دہشتگردی کی بنیادیں پڑیں جس نے پہلے پاکستان کو متاثر کیا اور آج پوری دنیا اس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس کا نقصان بھارت کو بھی ہوا کہ بھٹو کے بعد خطے میں دہشت گردی زیادہ بڑھ گئی اور جنرل ضیاء نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔
تاہم ان شرکاء نے اس کا یہ جواز پیش کیا کہ شاید بھارت ان دنوں خود ایک بہت بڑے بحران سے گزر رہا تھا اور اندرا گاندھی ایمرجنسی نافذ کر چکی تھیں لہذا وہ پاکستان میں جمہوریت کی واپسی کیلئے عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ پاکستانی جنرل سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے دور میں ملکی قیادت کو بھارت سے تعلقات ٹھیک نہیں کرنے دیتے لیکن جب یہ خود مارشل لاء لگا کر پاکستان پر قابض ہوتے ہیں تو پھر چاہے بھارت انہیں دعوت دے یا نہ دے یہ کبھی جنرل ضیاء کی طرح کرکٹ ڈپلومیسی کا بہانہ بنا کر بنگلور پہنچ جاتے ہیں یا پھر آگرہ کے تاج محل میں جنرل مشرف کی طرح فوٹو سیشن کراتے ہیں۔
اس گفتگو کے شرکاء میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی قوتوں سے ہمدردی رکھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایک مضبوط جمہوریت قائم ہو کیونکہ اس میں بھارت کا ہی فائدہ تھا اور وہ اپنی حکومتوں پر یہ تنقید بھی کر رہے تھے کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان میں سیاسی استحکام بھارت کے اپنے مفاد میں تھا۔
تاہم اس بحث کے دوران ایک بھارتی تھنک ٹینک کے نوجوان ریسرچر نے ایک ایسی بات کہہ دی جسے سن کر میں ایک لمحے کیلئے پریشان ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے پاکستانی میڈیا کو فالو کر رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا انگریزی اور اردو میڈیا ایک دوسرے سے بہت مختلف سوچتا ہے۔ پاکستان کا انگلش میڈیا اگر جناح کا سیکولر پاکستان چاہتا ہے تو اردو میڈیا جناح کی تقریروں کو اپنے معنی دیکر اس کے الٹ چل رہا تھا۔ اس نے ایک پاکستانی اخبار میں چھاپے گئے ایک کارٹون کا حوالہ بھی دیا جس میں جناح کو داڑھی کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔ اس نوجوان ریسرچر کا خیال تھا کہ پاکستان میں اگر جمہوریت خطرے میں تھی تو اس کی ایک اہم وجہ پاکستانی میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز تھے جہاں نان پروفیشنلز نے جگہ لے لی تھی اور وہاں بیٹھے لوگ بغیر سوچے سمجھے اس طرح کے کام کر رہے تھے جس سے وہاں کی جمہوریت ایک دفعہ پھر شدید خطرے میں آ گئی تھی۔
اس نوجوان ریسرچر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اب کی دفعہ پاکستان میں جمہوریت کا بستر گول کیا گیا تو دوسرے اداروں کے علاوہ سب سے بڑا الزام پاکستانی میڈیا کو اپنے اوپر لینا پڑے گا کہ انہوں نے وہاں اس طرح کا ماحول پیدا کیا جس سے ریاست کے دیگر اداروں کو اتنی جرات اور جواز مل گیا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر جمہوریت پر شب خون مار دیا۔ اس ریسرچر کے بقول انہیں پاکستانی میڈیا میں جو سب سے بڑی خامی لگ رہی تھی وہ یہ تھی کہ یہ جذباتیت کے سہارے چل رہا تھا اور اس کے اندر سے غیر جانبدارانہ پن تقریباً ختم ہو کر رہ گیا تھا اور عوام کو گائیڈ کرنے کی بجائے عوام کو فالو کیا جارہا تھا۔ پاکستانی ٹی وی پروگرام میں ہونے والی گفتگو کا مقصد لوگوں کو انفارم کرنے کی بجائے ان سے تالیاں بجوانا بن گیا تھا۔ جو بھی پاکستانی چینل لگائیں یا اخبار کھولیں اس پر ہر وقت سیاسی لوگوں اور پارلیمنٹ پر لعن طعن جاری تھی جس سے لوگوں میں جمہوریت کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی اور اس کا فائدہ فوج اور عدلیہ کو ہوگا جن کے بارے میں اب یہ خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ وہ موجودہ نظام کا خاتمہ کر کے بنگلہ دیش ماڈل کا نیا نظام لانا چاہتے ہیں۔ اس نوجوان کے خیال میں پاکستانی میڈیا کو جمہوریت اور سیاستدانوں کے درمیان فرق کو محسوس کرنا چاہیے کہ اگر کچھ سیاستدان ڈلیور نہیں کر سکے تو اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا کہ جمہوریت ناکام ہو گئی تھی۔ جمہوریت ایک طویل اور صبر آزما سلسلے کا نام ہے اور بدقسمتی سے شاید پاکستانی عوام تو انتظار کرنے کو تیار ہوں لیکن لگتا ہے پاکستانی میڈیا کو بہت جلدی ہے اور جس طرح کی رپورٹنگ اور تبصرے پاکستان میں کیے جا رہے ہیں ان کی مثال شاید دنیا کے بہت کم حصوں میں ملے گی۔
اس بھارتی نوجوان ریسرچر کے خیال میں ایسی آزاد عدلیہ اور ایسے آزاد میڈیا کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو کسی ملک کے جمہوری اور پارلیمانی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے انہیں بلڈوز اور گرانے کا سبب بنے اور اب کی دفعہ اگر پاکستان میں جمہوریت پر شب خون مارا گیا تو پاکستانی میڈیا ماضی کی طرح اپنے آپ کو ہرگز معصوم نہیں کہلوا سکے گا !!
------------------------------------------------------------------------
1 | 2 | 3 | 4 |
No comments:
Post a Comment